اردو شا عر ی
کھبی ہم بھی محبت میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے
پتا اس دن چلا جب وفا مانگتے رہے فقیروں کی طرح
(
این تارڑ)
میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا
کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا
اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی
اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا میرا بھی تھا
ہاں یہی کوئے خرابی ، ہاں یہی دہلیزِ عشق
لاپتہ ہونے سے پہلے یہ پتہ میرا بھی تھا
ریزہ ہائے خوابِ الفت چننے والے دیکھنا!
اِن شکستہ آئنوں میں آئنہ میرا بھی تھا
لو لگائے جل رہا تھا ایک طاقِ درد پر
آپ کے جشنِ چراغاں میں دیا میرا بھی تھا
ویب گاہِ زندگی کو غور سے دیکھا جو آج
ربط اُس کے نام سے ٹوٹا ہوا میرا بھی تھا
زندگی کو دیجئے الزام اتنا بھی نہ آپ
زندگی تو عمر بھر اک مسئلہ میرا بھی تھا
قرض میرا مان لیجے سایۂ دیوار پر
اب جہاں دیوار ہے وہ راستہ میرا بھی تھا
کچھ تو نیرنگی پہ مائل تھا تماشا بھی محسن
اور سب سے مختلف کچھ زاویہ میرا بھی تھا
✍____ محسن حافظ
اب گناہ و ثواب بِکتے ہیں
مان لیجے جناب بِکتے ہیں
میری آنکھوں سے آ کے لیجاؤ
ان دکانوں پہ خواب بِکتے ہیں
پہلے پہلے غَریب بِکتے تھے
اب تو عِزت مآب بِکتے ہیں
بے ضَمیروں کی راج نِیتی میں
جاہ و منصب خطاب بِکتے ہیں
شیخ،واعظ ،وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جَناب بِکتے ہیں
دَور تھا اِنقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بِکتے ہیں
دِل کی باتیں حبیب جُھوٹی ہیں
دِل بھی خانہ خراب بِکتے ہیں
✍____ محسن حافظ
رفاقتوں میں وقار کھونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی سنے گاتو کیا کہے گا
یہ دن کا سونا یہ شب کو رونا۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
بیچ بھنور میں چھوڑ آتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بات تم پر یوں نہ آتی
یہ ساحلوں پر ہمیں ڈبونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
جو جی میں آیا تو خوب کھیلا۔۔۔۔۔۔۔ جو جی سے اترا تو توڑ ڈالا
میرا دل بھی تھا اک کھلونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
کہا جو اس سے کہ ڈر خدا سے ۔۔ تمہیں کیا خدائی کا ڈر نہیں ہے
ہنس کے بولے کہ چپ رہو جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
✍____ محسن حافظ
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوئے جاں کو امجدؔ میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا
صبحِ ازل سے تیرا ہوں
میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا
کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا
اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی
اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا میرا بھی تھا
ہاں یہی کوئے خرابی ، ہاں یہی دہلیزِ عشق
لاپتہ ہونے سے پہلے یہ پتہ میرا بھی تھا
ریزہ ہائے خوابِ الفت چننے والے دیکھنا!
اِن شکستہ آئنوں میں آئنہ میرا بھی تھا
لو لگائے جل رہا تھا ایک طاقِ درد پر
آپ کے جشنِ چراغاں میں دیا میرا بھی تھا
ویب گاہِ زندگی کو غور سے دیکھا جو آج
ربط اُس کے نام سے ٹوٹا ہوا میرا بھی تھا
زندگی کو دیجئے الزام اتنا بھی نہ آپ
زندگی تو عمر بھر اک مسئلہ میرا بھی تھا
قرض میرا مان لیجے سایۂ دیوار پر
اب جہاں دیوار ہے وہ راستہ میرا بھی تھا
کچھ تو نیرنگی پہ مائل تھا تماشا بھی محسن
اور سب سے مختلف کچھ زاویہ میرا بھی تھا
✍____ محسن حافظ
اب گناہ و ثواب بِکتے ہیں
مان لیجے جناب بِکتے ہیں
میری آنکھوں سے آ کے لیجاؤ
ان دکانوں پہ خواب بِکتے ہیں
پہلے پہلے غَریب بِکتے تھے
اب تو عِزت مآب بِکتے ہیں
بے ضَمیروں کی راج نِیتی میں
جاہ و منصب خطاب بِکتے ہیں
شیخ،واعظ ،وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جَناب بِکتے ہیں
دَور تھا اِنقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بِکتے ہیں
دِل کی باتیں حبیب جُھوٹی ہیں
دِل بھی خانہ خراب بِکتے ہیں
✍____ محسن حافظ
رفاقتوں میں وقار کھونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی سنے گاتو کیا کہے گا
یہ دن کا سونا یہ شب کو رونا۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
بیچ بھنور میں چھوڑ آتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بات تم پر یوں نہ آتی
یہ ساحلوں پر ہمیں ڈبونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
جو جی میں آیا تو خوب کھیلا۔۔۔۔۔۔۔ جو جی سے اترا تو توڑ ڈالا
میرا دل بھی تھا اک کھلونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
۔
کہا جو اس سے کہ ڈر خدا سے ۔۔ تمہیں کیا خدائی کا ڈر نہیں ہے
ہنس کے بولے کہ چپ رہو جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
✍____ محسن حافظ
اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے
اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے
ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا
تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے
جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے
یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے
بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا
ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے
ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل
یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے
قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش
قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے
محسن حافظ ) جون ایلیاء)
طنز کرتے ھیں جو لوگ --- اُن کو دکھانے کے لیے
لوٹ آئو نا مرے یار -------------- زمانے کے لیے
اس لیے بھی تری تصویر --------- جلا دی میں نے
اور کچھ تھا ھی نہیں ----- دل کو جلانے کے لیے
تیرے باعث ھی تو ------ سَکتے کا عالم ھے طاری
خود کو ناراض کیا -------- تجھ کو منانے کے لیے
آج پھر شام گزاری ھے ---------- اُسی جنگل میں
اُن درحتوں سے ترا نام ----------- مٹانے کے لیے
✍_____ محسن حافظ
اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں
رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں
راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں
ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے
بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں
ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں
اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں
✍____ محسن حافظ
گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے
کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
زخم ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
کس شہر نا سپاس میں پیدا کیا مجھے
جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
کیوں ذوق شعر دے کے تماشا کیا مجھے
خوشبو ہے چاندنی ہے لب جو ہے اور میں
کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے
میں یوں سنبھل گئی کہ تری بے وفائی نے
بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
دنیا کے ہر فریب سے ملوا دیا مجھے
اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
بیتے دنوں کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیا مجھے
پروین شاکر
____ محسن حافظ
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوئے جاں کو امجدؔ میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا
صبحِ ازل سے تیرا ہوں
✍___ محسن حافظ
ہوتے ہیں شائد نفرت میں ہی پاکیزہ رشتے
ورنہ اب تو تن سے لباس اتارنے کو لوگ محبت کہتے ہیں
(یوسف تارڑ )
جسے ہاتھہ میں خو شیوں کے خزانے آے
یاد پھر سے مجھے وہ گزرے زمانے آے
میرے اپنے بھی مجھے بھولے ہوے ہیں شائد
ایک مدت سے نہیں دل کو دکھانے آے
اور دہلیز په آ جاتین ہیں یادیں لیکن
لوٹ کر پھر نہیں بچپن کے زمانے آے
اب کہ موسم نے بھی احسا ن کیا ہے مجھہ پے
یاد پھر مجھے وہ درد پرانے آے
وصی -کٹ چکے ہاتھہ تو پھر ہاتھہ ملانے آے
جب تک نہ لگے بے وفا ئی کی ٹھو کر
ہر کسی کو اپنی محبت پر ناز ہوتا ہے
(یوسف تارڑ )
کمال کا طعنہ دیا ----آج مجھے کسی نے
اگر وہ تیرا ہے تو -تیرے پاس کیوں نہیں
(این تارڑ )
پو چھتے ہے لوگ تم اتنی شا عر ی کیسے کرتے ہو تو مسکرا کر کہتا ہوں -سب کمال ہے درد کا
(یوسف تارڑ )
ہمیں میں جانتی ہوں کہ اس کے بنا جی نہیں سکتی
حال اس کا بھی یہی ہے--مگر کسی اور کے لیے
(این گوندل )
ہم تو چراغ ہیں جل جاتے ہیں اوروں کے لیے
( این تارڑ )
کتنے بے بس ہے ہم تقدیر کے ہاتھوں
نہ اسکو پانے کا ظرف نہ کھونے کا حو صلہ
(این گوندل )
مجھے پھر سے سکول کا بستہ تھما دو میری ماں
مجھے زندگی کا سبق بہت مشکل لگتا ہے
(یوسف تارڑ )
رکھہ میرے ہاتھہ پر اپنے ہاتھہ کا بھروسہ
کہ اب کے ہم بکھریں تو موت آ جاۓ
(یوسف تارڑ )
میرے لیے تم اور بس تم
اتنی سی بات تم سمجھتے کیوں نہیں
(این تارڑ )
نہیں بستے وہ دل جو اک بار اجڑ جائیں
قبریں جتنی بھی سنوارو وہاں رونق نہیں ہوتی
( این گوندل )
جان لیوا ہوتے ہیں اکثر سینے سے لگانے والے
(این گوندل )
انا کی موج مستی میں ابھی بھی باد شاہ ہیں ہم
جو دل کو توڑ دیتے ہیں .ہم ان کو چھوڑ دیتے ہیں
( یوسف تارڑ )
جیسے جڑیں کسی شجر کی گڑی ہوں زمین میں
پیوست مجھہ میں یوں ہو گے ہو
(سفیان مہدی تارڑ )
تم نے ہی کہا تھا آنکھہ بھر کہ دیکھہ لیا کرو
اب آنکھہ توبھر آتی ہے پر تم نظر نہیں آتے
(یوسف تارڑ )
جانے پھرکس سوچ میں ڈوبا بیٹھ گیا
باغ تھا شام تھی سرد ہوا تھی بیٹھ گیا
میں نے پھر اک پھول کی جانب انگلی کی
میرے ہاتھ پہ آکر تتلی بیٹھ گئی
اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا
میں اُس صورت میں کیا کرتا بیٹھ گیا
رونے سے کچھ کم تو ہوا یہ دل کا غبار
بارش سے قبروں کی مٹی بیٹھ گئ
کس کس گھر کی تاریکی میں کام آتا
ایک دۓ پر ساری بستی بیٹھ گئ
سوچ رہا ہوں رات کہاں سے گزرے گی
شام سے دل میں ایک اداسی بیٹھ گئی
پھر دنیا کی جانب آنکھ نہیں اٹھی
دل پر ایسی بات کسی کی بیٹھ گئی
اب تو تیری عادت بن گئی ہے جاناں
جس گوشے میں جا کر بیٹھ گیا بس بیٹھ گیا ۔۔
✍_____ محسن حافظ
روز ہی خواب کوئی دل کو بجھا جاتا ہے
روز پھر خواب نیا دل یہ جلا لاتا ہے
روز تھکتا ہوں میں کر کر کے مرمت اپنی
روز اک نقص نیا مجھ میں نکل آتا ہے
روز آتی ہیں بہاریں تو مرے آنگن میں
روز یہ وقت خزاں ایک نئی ڈھاتا ہے
روز امید نئی لے کے نکلتا گھر سے
روز یہ شخص مگر راہ بھٹک جاتا ہے
کتنا چاہا کہ محبت سے بچا لوں خود کو
روز سمجھاتا ہوں، دل روز دغا کھاتا ہے
لوگ اچھے ہیں مرے گرد مگر کیا کیجے
روز اب شخص کہاں دل کو کوئی بھاتا ہے
روز دنیا پہ بھروسے کی جو غلطی کرتا
روز دنیا سے وہ دھوکہ ہی سزا پاتا ہے
روز لفظوں کو بناتا ہے تو مرہم ابرک
روز لفظوں سے نیا زخم تو اٹھاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک
✍___ محسن حافظ
وہ شخص کتنا سدھر گیا ہے
کہ دل سے میرے اتر گیا ہے
تھا اک تعلق عذاب سا جو
وہ ٹوٹ کر اب سنور گیا ہے
جو ساتھ رہ کر بجھا بجھا تھا
بچھڑ کے کتنا نکھر گیا ہے
سکوں ہے اب جو نہ یہ خبر ہے
اِدھر گیا یا اُدھر گیا ہے
جو کوچہ کوچہ بھٹک رہا تھا
وہ آج اپنے ہی گھر گیا ہے
سرہانے رکھ کے تھا میں تو سویا
یہ ڈر نہ جانے کدھر گیا ہے
وہ وہم جس پہ میں مر مٹا تھا
میں جی اٹھا تو وہ مر گیا ہے
نہ ڈھونڈ اُس کو تو اِس کنارے
جو پار کب کا اتر گیا ہے
میں راہ سے وقت پہ ہٹا ہوں
سو وقت گزرا، گزر گیا ہے
ہے خوش نصیبی کمال ابرک
کہ رائیگاں یہ سفر گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک
✍_____ محسن حافظ
اپنے اندر جو ہیں شیطان یہ پالے میں نے
اے مرے رب تو ذرا ان کو تو غارت کر دے
حق و باطل میں نظر فرق مجھے صاف آئے
نیک بس راہ چلوں ایسی تو فطرت کر دے
میں جو شک کرتا ہوں لوگوں پہ یوں لمحہ لمحہ
خوش گمانی کو مرے رب مری عادت کر دے
دین دنیا سے جدا کر کے میں شرمندہ ہوں
ان میں قربت جو ہے لازم ، وہی قربت کر دے
مجھے بھٹکانے کو کرتا ہے جو حیلے شیطاں
کارگر مجھ پہ وہ ہوں، اُُس کی یہ حسرت کر دے
ہم جو کمزور ہوئے فرقوں میں یوں بٹ بٹ کر
سارے فرقوں کو ملا، ایک ہی ملت کر دے
روزِ محشر ہو مجھے قرب محمد ﷺ کا نصیب
میری ہر سانس کو بس ان کی ہی سنت کر دے
اور ابرک کو نظر آئے نہ کچھ تیرے سوا
اس محبت میں مرے رب تو یہ شدت کر دے
........................................................اتباف ابرک
✍___ محسن حافظ
عجیب حجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹے پتے تلاش کرتا تھا
تمام رات وہ زخم دے کر اپنے پیروں کو
میرے وجود کے ریزے تلاش کرتا تھا
دعائیں کرتا تھا اجڑے ہوئے مزاروں پر
بڑے ہی عجیب سہارے تلاش کرتا تھا
تمام رات پردے ہٹا کر چاند کے ساتھ
جو کھو گئے وہ لمحے تلاش کرتا تھا
مجھے تو آج بتایا ہے بادلوں نے فراز
وہ لوٹ آنے کے راستے تلاش کرتا تھا۔۔
✍_____ محسن حافظ
یہ جو منہ پہ نکھار ہے سائیں
آپ ہی کی بہار ہے سائیں
آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں
آپ کو اختیار ہے سائیں
تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
ایک میرا بھی یار ہے سائیں
کسی کھونٹی سے باندھ دیجئے اسے
دل بڑا بے مہار ہے سائیں
عشق میں لغزشوں پہ کیجئے معاف
سائیں یہ پہلی بار ہے سائیں
کل ملا کر ہے جو بھی کچھ میرا
آپ سے مستعار ہے سائیں
ایک کشتی بنا کے دیجئے مجھے
کوئی دریا کے پار ہے سائیں
روز آنسو کما کے لاتا ہوں
غم میرا روزگار ہے سائیں
وسعت رزق کی دعا دیجئے
درد کا کاروبار ہے سائیں
خار زاروں سے ہو کے آیا ہوں
پیراہن تار تار ہے سائیں
کبھی آ کر دیکھئے کہ یہ دل
کیسا اجڑا دیار ہے سائیں ،،،!
✍___ محسن حافظ
تم نے تو بات کی ہے بہت ہی کمال کی
لیکن بجھی نہ پیاس ہمارے سوال کی
۔
طعنہ سنا کہ مفت کی کھاتے ہو تم میاں
رانجھے نے عشق کر لیا، روزی حلال کی
۔
ہرنی نے چوکڑی بھری اور چل پڑی ہوا
میں بات کر رہا تھا تری چال ڈھال کی
۔
میں یوں بھی ناقدین سے رہتا ہوں دور دور
کمبخت کھال اتارنے لگتے ہیں بال کی
۔
اب تاج اتار دیجیے صاحب یہ دشت ہے
یہ جا نہیں حضور کے جاہ و جلال کی
✍____ محسن حافظ
وہاں نہ پھول کھلتے نہ ہی موسم بدلتے ہیں
وہاں تو کچھ نہیں ہوتا جہا ں پر تم نہیں ہوتے
یہاں ویسے تو ہر سوغات آسانی سے ملتی ہے
پر میرا دل نہیں لگتا، جہاں پر تم نہیں ہوتے
یہاں تو لوگ صدیوں کو بھی لمحوں میں بدلتے ہیں
میرا ایک پل نہیں کٹتا جہاں پر تم نہیں ہوتے
سبب رونے کا وہ پوچھیں تو قاصد اتنا کہہ دینا
مجھے ہنسنا نہیں آتا، جہاں پر تم نہیں ہوتے
🖊___ محسن حافظ
دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جس کو حال سناتے اسے رلا دیتے
تمھیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں!
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
تمھاری یاد نے کوئی جواب ہی نہ دیا
مرے خیال کے آنسو رہے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا سید
وہ کچھ نہ کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے
وصی شاہ
🖊____ محسن حافظ
میں مصور، میری تصویر ہے تُو
ہوں اگر خواب تو تعبیر ہيں تُو
تُو میری زندگی کا حاصل ہے
میں ہوں وارث، میری جاگیر ہے تُو
میرے ہر لفظ کا رشتہ تجھ سے
میں اک کتاب، میری تشحیر ہے تُو
میں نے ازلوں سے تجھے چاہا ہے
ہوں اگر روح، تو خمیر ہے تُو
تیرے ہونے سے میرا ہونا ہے
ہے جو لکھا، وہی تقدیر ہے تُو
زین ہر دم ہوں تجھ سے وابستہ
میں ہوں قیدی، میری زنجیر ہے تُو
🖊____ محسن حافظ
بستی کے دِیے چُپ تھے بہت
تیز ہوا تھی
بس میں تھا تری یاد تھی ہونٹوں
پہ دُعا تھی
اُس شخص کی ہر ایک ادا یاد
ہے اب تک
ٹھہرا ہُوا لہجہ تھا نِگاہوں
میں حیا تھی
وہ اَبر کی صُورت تھی
سرِ شہرِ تمّنا
تپتے ہُوے صحراوں میں
گھنگھور گھٹا تھی
میں وقت کے ہاتھوں میں کِھلونے
کی طرح تھا
کیا میری تمّنائیں تِھیں کیا
میری وفا تھی
یُوں ختم ہُوا اپنی مُحّبت
کا فسانہ
وہ اگلے دوراہے پہ خموشی
سے جُدا تھی
دو بول تسّلی کے اگر
وہ مجھے کہتی
سچ تو ہے یہی اُس کی جُدائ
بھی رَوا تھی
وہ شہر میں ہوتی تو میں یہ
پُوچھتا اُس سے
دُنیا تو خفا تھی ہی مگر وہ
کیوں خفا تھی
یُوں چھوڑ کے اِس شہر کو ایسے
تو نہ جاو
بستی میں ہر اِک لب پہ یہی
ایک دُعا تھی
دِن بِیت گیا اور یہی
سوچ رہے ہیں
جِس نے ہمیں برباد کیا کس
کی اَنا تھی
تم لوگ اِسے جِینا سمجھتے
ہو تو سمجھو
ہم تو یہی سمجھے ہیں کہ جِینے
کی سزا تھی
اُس در سے نہ اُٹھتے تو بھلا
اور کیا کرتے
ہم اہلِ وفا کی وہاں اوقات
ہی کیا تھی
🖊_____ محسن حافظ
زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں
ہم بہرحال سلیقے سے جیے جاتے ہیں
ایک دن ہم بھی بہت یاد کئے جائیں گے
چند افسانے زمانے کو دئیے جاتے ہیں
ہم کو دنیا سے محبت بھی بہت ہے لیکن
لاکھ الزام بھی دنیا کو دئیے جاتے ہیں
بزم اغیار سہی ازرہ تنقید سہی
شکر ہے ہم بھی کہیں یاد کیے جاتے ہیں
ہم کیے جاتے ہیں تقلید روایات جنوں
اور خود چاک گریباں بھی سیے جاتے ہیں
غم نے بخشی ہے یہ محتاط مزاجی ہم کو
زخم بھی کھاتے ہیں آنسو بھی پیے جاتے ہیں
حال کا ٹھیک ہے اقبالؔ نہ فردا کا یقیں
جانے کیا بات ہے ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
✍____ محسن حافظ
پنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
رات کے دشت میں پھول کھلے ہیں بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
تم بھی منیرؔ اب ان گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچاتے رہنا
(منیر نیازی)
✍____ محسن حافظ
شہر کا شہر ہے، بے زار کہاں جاؤں میں
اور تنہائی ہے دشوار کہاں جاؤں میں
لوگ مرتے ہیں سسکتے ہیں مزے لیتے ہیں
دیکھ کر سرخیٔ اخبار کہاں جاؤں میں
تو جو کہتا ہے کہ یہ خاک وطن تیری ہے
میں کہاں پر ہوں مرے یار کہاں جاؤں میں
ایک انکار پہ موقوف ہیں سارے قصے
میں کہاں صاحب کردار کہاں جاؤں میں
مجھ کو رشتوں کی تجارت کبھی منظور نہ تھی
سوچتا ہوں سر بازار کہاں جاؤں میں
پارسا خواب سبھی اس کے تصرف میں رہے
رات بھی ہو گئی بدکار کہاں جاؤں میں
کوئی منزل تری نیت سے کبھی روشن ہو
اے مرے قافلہ سالار کہاں جاؤں میں
ایک جھنڈے ہیں سبھی رنگ جدا ہیں ان کے
کون ہے کس کا علم دار کہاں جاؤں میں
جتنے منکر تھے ترے سارے فرشتے نکلے
ایک میں تیرا گنہ گار کہاں جاؤں میں
میں کنارے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں خورشیدؔ
ناؤ کے ساتھ ہے منجدھار کہاں جاؤں میں
(خورشیدؔ اکبر)
✍____ محسن حافظ
میں نظر سے پی رہا ہوں، یہ سما بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں، کہیں رات ڈھل نہ جائے
مرے اشک بھی ہیں اس میں، یہ شراب اُبل نہ جائے
مرا جام چھونے والے، ترا ہاتھ جل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی، نہ اُٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے، کہیں پھر سنبھل نہ جائے
مری زندگی کے مالک، مرے دل پہ ہاتھ رکھنا
ترے آنے کی خوشی میں، مرا دم نکل نہ جائے
مجھے پھونکنے سے پہلے مرا دل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت، مرے ساتھ جل نہ جائے
✍____ محسن حافظ
Comments
Post a Comment